CPP to hold All Left Parties Conference in Islamabad. CPP rejected PDM Call of Unity.

کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان نے پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کی آل پارٹیزکانفرنس کے برعکس عوامی مسائل کے حل کے لیئےلیفٹ پارٹیوں کی آل پارٹیزکانفرنس بلانے کااعلان کردیا۔

کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان(سی پی پی)نے ملک گیر سطح پر مظلوم عوام و محنت کش مزدور وکسان اور عوامی مسائل کے حل کی نمائندہ لیفٹ پارٹیوں کی اسلام آباد میں  آل پارٹیزکانفرنس بلانے کا فیصلہ کیا ہے۔ جس کی تاریخ کاجلد اعلان کر دیا جائے  گا۔ اس کا اعلان سی پی پی کے چیئرمین انجنئیر جمیل احمد ملک نے اپنی ایک پریس ریلیز میں کیا۔

وزیراعظم عمران خان اور اسکی اتحادی جماعتیں عوام کے مسائل حل کرنے میں بری طرح ناکام ہو گئی ہیں۔مہنگائی و بے روزگاری عروج پرہےاور عوام شدید مشکلات میں مبتلا ہیں جبکہ ہمارےملک میں اپوزیشن میں موجود تمام بورژوا (Bourgeoisie)، علاقائی ، مذہبی اورسیاسی جماعتوں کا نہ کوئی ٹھوس معاشی پروگرام ہے اور نہ ہی وہ جمہوریت سے مخلص ہیں اور پھر یہ کوئی اصولی سیاست بھی نہیں کرتے ہیں ۔ یہ اپنی بنیاد بنانے کے لئے کوئی بھی جھوٹ بول سکتے ہیں، ہر قسم کی سماجی برائیاں اور کرپشن ان کی تمام تر لیڈر شب میں بدرجہ اتم موجود ہیں۔ اقتدار سے باہر ہوں تو اقتدار حاصل کرنے کے لئے کسی بھی مروجہ اصول کو بالائے طاق رکھ کر ہر قسم کی مخالف پارٹی سے مل کر اتحاد بنا لیتے ہیں۔ نواز شریف حکومت کے خلاف آخری سال 1999ء میں بنائے گئے گرینڈ ڈیمو کریٹک الائنس میں صرف ایک نقطہ پر اتحاد تھا اور وہ نقطہ نواز شریف کو اقتدار سے باہر نکالنا تھا۔ جس کے لئے عمران خان، طاہر القادری، بے نظیر بھٹو، اسفند یار ولی، نوابزادہ نصراللہ وغیرہ سب اکٹھے تھے اور اسے باہر نکالنےکے لئے فوج اور عدلیہ سے بار بار اپیلیں کر رہے تھے۔ 12اکتوبر 1999ء کے جنرل پرویز مشر ف کے فوجی اقدام کو نظریہ ضرورت کے تحت ان تمام نام نہاد ”جمہوری”قوتوں نے درست، جائز اور لازمی قرار دیا اور اسی قسم کی صورتحال نواز شریف نے بے نظیر بھٹو کی حکومت کو ختم کرنے کے لئے جنم دی تھی اور اب یہ بے اصول اور موقع پرست وکرپٹ تمام سیاست دان بشمول نواز شریف ، شہباز شریف ، مریم نواز، آصف علی ذرداری ،بلاول بھٹو، محمود اچکزئی اور مولانا فضل الرحمن اور دیگر سیاسی رہنما آل پارٹیز کانفرس کی آڑ میں علی بابا اور چالیس چور وں کی طرح بڑی ڈھٹائی سے اسلام آباد میں 20ستمبر کو عوام کو دھوکہ دینے کے لیئےپاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (PDM) کےنام پر جمہوریت کی بحالی اور سول بالادستی  کا نعرہ بلند کرتے ہوئے پھر اکھٹے ہو گئے ہیں جبکہ حقیقتاً ان کے نزدیک جمہوریت کی بحالی اور سول بالادستی  کا مطلب کنٹرول  جمہوریت اور نام نہاد سول حکمرانی کے ذریعے لوٹ کھسوٹ اور اس گلے سڑے اوراستحصالی نظام کو جاری و ساری رکھنے کے علاوہ اور کوئی ٹھوس معاشی پروگرام نہیں ہے۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستان میں معاشیات اور جمہوریت کی بحالی کا مسئلہ جتنا کمیونسٹوں،سوشلسٹوں اور ترقی پسندوں کے لئے اہم اور ضروری ہے،اتنا ان نام نہاد جمہوری قوتوں اور مذہبی اور سیاسی پارٹیوں کے لئے ہرگز نہیں کیونکہ ہم کمیونسٹ و سوشلسٹ سمجھتے ہیں اور پاکستان کی اب تک کی تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ مارشل لاء کی حکومتوں اور فوج کی حمایت یافتوں حکومتوں میں محنت کشوں اور غریب و مظلوم عوام کو کوئی معاشی ریلیف نہیں ملتا اور ان کے حالات زندگی میں کوئی نمایاں اور گراں قدر تبدیلی واقع نہیں ہوتی جبکہ مارشل لاء کی حکومتوں یا فوج کی حمایت یافتوں حکومتوں میں اگر کسی کو فائدہ پہنچتاہے تو وہ صرف جاگیردار، سرمایہ دار، مراعات یافتہ امراء طبقہ، سیاست دان اورخود فوج ہے کہ جن کی ہر من مانی اور زیادتی کا قانونی تحفظ مارشل لاء کی حکومت یا نام نہاد سویلین حکومت ان کو فراہم کرتی ہے اور دوسری طرف محنت کشوں، مزدوروں، کسانوں اور بے بس عوام کے پر امن حق ہڑتال، جلسہ و جلوسوں اور احتجاج کو قانوناً ممنوع قرار دیتی ہے اور یوں ان ظالم طبقات کے خلاف جدوجہد کرنے والے مظلوم طبقات کو ہر قسم کی انتقامی کارروائی سے گزرنا پڑتاہے اور  پاکستان کی مارشل لاء اور نام نہاد سویلین اور سیاست دانوں کی حکومتوں کی تاریخ بشمول موجودہ حکمران عمران خان اس ظلم و جبر سے بھری پڑی ہیں اور اب کوئی بات،واقعہ اور قصہ اس ضمن میں ایسا نہیں ہے جو عوام سے پوشیدہ ہواور بقول فیض احمد فیض ۔

”چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اٹھاکے چلے ”

پاکستان میں نظام کی تبدیلی، معاشیات اور جمہوریت کی بحالی کمیونسٹوں، سوشلسٹوں اورترقی پسندوں کے لئے موت و حیات کا مسئلہ ہے ۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ کے اس نازک ترین موڑ پر ہم اب کمیونسٹوں اور سوشلسٹوں کو ہی اس ملک میں جمہوریت اور سول بالا دستی کی جنگ لڑنی ہو گی اور ہم کمیونسٹوں اور سوشلسٹوں کے نزدیک جمہوریت کی بحالی صرف ایک ووٹ کے حق تک محدود یا مشروط نہیں بلکہ یہ نظام میں معاشی، سیاسی، سماجی اور ثقافتی انقلاب اور انصاف کا نام ہے ۔علاوہ ازیں یہ حقیقت اپنی جگہ مسلمہ ہے کہ اس ملک میں کمیونسٹوں، سوشلسٹوں اور ترقی پسندوں سے زیادہ اور کون نظام کی تبدیلی اور جمہوریت پسند ہو سکتا ہے، صرف فرق اتنا ہے کہ مذہبی اور سیاسی جماعتوں کی نگاہ میں یا سرمایہ دارانہ وجاگیردارانہ نظام حکومت میں نظام کی تبدیلی اور جمہوریت کی بحالی صرف ایک ووٹ کے حق تک محدود ہے جبکہ ہم کمیونسٹوں،سوشلسٹوں اور ترقی پسندوں کےنزدیک نظام کی تبدیلی اور جمہوریت کی بحالی صرف ایک ووٹ کے حق تک محدود یا مشروط نہیں بلکہ یہ نظام میں معاشی، سیاسی، سماجی اور ثقافتی انصاف کا نام ہے اور یہی وہ سیاسی جدوجہد ہے جس کے لئے ایک ملک گیر سطح پر مظلوم عوام و محنت کش مزدور وکسان اور عوامی مسائل کے حل کی نمائندہ لیفٹ پارٹیوں کی اسلام آباد میں  آل پارٹیزکانفرنس اب ناگزیر ہے۔

ہمارے ملک مں  اب تک چار مار شل لاء لگ چکے ہیں ۔ پہلا مارشل لاء 7اکتوبر1958ء کو جنرل محمد ایوب خان نے لگایا ۔ دوسرا مارشل لاء 25مارچ 1969ء کو جنرل محمد یحییٰ خان نے لگایا۔ تیسرامارشل لاء 5جولائی 1977ء کو جنرل محمد ضیاء الحق نے لگایا اور چوتھا مارشل لاء 12اکتوبر1999ء کو جنرل پرویز مشرف نے لگایا۔ اس طرح فوج نے 72سالہ ملکی تاریخ مںم 36سال براہ راست حکمرانی کی اور اس وقت بھی فوج (Indirectly)بلواسطہ بذریعہ عمران خان بر سرِاقتدار ہے۔ عمران خان، پاکستان تحریک انصاف اور ان کی اتحادی جماعتوں کی حکومت بھی فوج کی مرہون منت ہے اور بد قسمتی سے ہمارے پیارے ملک پاکستان میں حقیقی سول بالا دستی ابھی تک عملاً ناپید ہے۔

حالانکہ یہ حقیقت اپنی جگہ مسلمہ ہے کہ ملک میں جب بھی مارشل لاء لگا تو کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان(سی پی پی)کے کمیونسٹوں، سوشلسٹوں اور ترقی پسندوں نے اس کا کبھی اور کسی صورت مں  ساتھ نہ دیا بلکہ اس کی بھرپور مخالفت کی جبکہ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ان چار مارشل لاؤں کا ساتھ اس ملک کی تمام دیگر مذہبی اورسیاسی پارٹیو ں نے دیا، صرف فرق اتنا ہے کہ پیپلز پارٹی اور اس کی چیئرپرسن بے نظیر  بھٹو نے 12اکتوبر1999ء کے جنرل پرویز مشرف کے مارشل لاء کی حمایت کی تو 5جولائی 1977ء کے جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء کی حمایت اس وقت پاکستان نیشنل الائنس میں شامل تمام سیاسی پارٹیوں بشمول مرحوم بابائے جمہوریت نوابزادہ نصراللہ خان نے بڑی ڈھٹائی سے کی اور جنرل ضیاء الحق آمریت کو ان تمام موقع پرست سیاست دانوں نے اس وقت تقویت بخشی تھی جبکہ اس وقت کے مشہور کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کے رہنما جام ساقی وہ واحد سیا سی رہنما تھے جوجنرل ضیاء الحق کی پوری آمریت میں جمہوریت کی بحالی اور مظلوم و غریب عوام کے غصب شدہ معاشی اور سیاسی حقوق کی خاطر دس سال پابند سلاسل رہے اور قید تنہائی کی اذیتیں  خندہ پیشانی سے برداشت کیں۔

جبکہ یہ بھی ایک مسلمہ حقیقت ہے اور تاریخ اس بات کی گواہ ہےکہ ایوبی  آمریت کے خلاف بھی عملی طور پرجدوجہد اور مزاحمت اس وقت کے نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن (NSF)کے مرکزی صدر معراج محمد خان ،ڈاکٹر رشید حسن خان اور دیگر ترقی پسند ساتھیوں نے ہی کی تھی۔ اس بات میں بھی کوئی شک و شبہ نہیں ہے اور تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ ایوبی آمریت سے لیکر مشرف کی آمریت تک، پاکستان میں عملی طور پر جمہوریت کی بحالی، آمریت سے نجات، حقیقی سول بالادستی کے قیام اور سوشلزم کے فلسفے کو اجاگر کرنے میں کمیو نسٹ رہنماحسن ناصرونذیرعباسی شہید،داداامیرحیدر،سیدسسجادظہیر،فیض احمد فیض،میجرمحمداسحاق،مرزا ابراہیم،دادافیروزالدین منصور،سیدسبط حسن، سی آر اسلم، سردار شوکت علی،جلال الدین بخاری، کا مریڈامام علی نازش، اسلم رحیل مرزا، زین الدین خان لودھی، پروفیسرایرک سپرین، پروفیسر ڈاکٹر عزیزالدین، پروفیسرجمال نقوی، پروفیسرحامدہاشمی، محمود احمدشاہ،سہیل سانگی،  بشیر شیر، امر لال، احمدکمال وارثی، قاضی امداد، مولا بخش خاصخیلی، منصورسعید، احمد ندیم قاسمی،افضل بنگش ،چوہدری بشیر جاوید، بشیر الاسلام، ماسٹر الف دین، چوہدری مراد علی، سعید اختر،شاہد ہاشمی،دلاور خان، کاکا صنوبر، ریٹائرڈ صوبیدار محمد حسین اور دادا امیرحیدرکی ستر سالہ ہمشیرہ، ڈاکٹر اعزاز نذیر، لطیف افغانی، اسلم اظہر، نسرین اظہر، مولانا بھاشانی،کنیز  فاطمہ،  عابدحسن منٹو، مختار احمد بٹ، حبیب جالب، چودھری فتح محمد، خواجہ سلیم، سو بھو گیان چندانی، عثمان بلوچ، ملک محمد اسلم، طارق لطیف، چودھری فتح محمد، چوہدری مسعود الحسن، طاہرہ مظہر علی خان، ناظر علی قاسم، مرحوم غوث بخش بز نجو، سردار  خیر بخش مری، افراسیاب خان خٹک، شبیرشر، نرنجن کمار، جبار خٹک، نعیم ایڈوکیٹ، مشتاق ہاشمی، زبیر ، نیازی، امداد چانڈیو ، شیر محمد منگر یو، محمد خان سولنگی، گھنشا امپر کاش، رسول بخش پلیچو، محمد رمضان، حسن رفیق، امتیاز عالم، ملک انور، استاد فضل دین، خالدمحمود، خاوررضوی، احمد وحید اختر،پرویز اختر ملک، پروفیسر منظور احمد، فردوس خان، فقیرمحمد، معراج گل خٹک، مختار باچہ، ڈاکٹر لال خان،  فاروق طارق، طفیل عباس، ذکی عباس، نعیم قریشی ایڈووکیٹ ، شوکت علی چوہدری، زبیر الرحمان، زاہدہ حنا، ڈاکٹر مبشر حسن، غنویٰ بھٹو، علی احمدپالی پوٹو،سیدسلیم شاہ، عمرسیال،ظہور احمد کھوسہ،محمد عباس سفیر،چوہدری منیرحسین، فانوس گجر،یوسف مستیٰ خان، اختر حسین، عابدہ چوہدری ،عظمت شاہ جہان، پروفیسر شاہ جہان، شازیہ خان، فرمان علی،جلیلہ  حیدر، باباجان، عامر رشید، عاصم سجاد اختر، عالیہ امیر علی،ظہوراحمد،بشیر  بٹر، عابدبٹر،طوبہ سید،نرگس خٹک، احفاظ الرحمان،شہاب خٹک، آغا بختیار،فرزانہ باری، نثار احمد شاہ، اسرار صافی، فرحت عباس،حسن عسکری، جواد احمد، ڈاکٹر شہنازخان،حسیب  الحسن، اسفندیارخان، مقصودحسین خان، محمد طارق اعوان، ڈاکٹر روبینہ عنایت،محمد رزاق،عبدالجبار،فتح یاب علی خان، سالار محمدشاہ علی،انقلابی گجر خان، شیر علی باچہ،صوفی عبدالخالق بلوچ،گل حیدر،پروفیسر یوسف انور،وارث خان، افضل خان لالہ،مشتاق چودھری،فہیم عامر،عادل محمود،صابر علی حیدر،ڈاکٹر ستارکاکر،طارق محمود، مصباح رشید ،حافظ ناصر،شیر بھٹی،میاں اشرف،اعظم زرکون،آصف علی چودھری،ایم یعقوب،حنیف رامے،محمد اکبر،فضلِ واحد،نذیرشہزاد،نذر مینگل ،عامر علی جان،محسن ابدالی،احسان الحق،یونس اقبال،علی رضا،شہیب قادر،علی آفتاب،سلیم  راز،فہمید ہ ریاض،منظور احمد راضی،عاشق حسین چودھری،محمد نسیم راوٗ،قاضی نعمت اللہ،رووف خان،ملک محمد اکرم کنڈی،امتیازالحق،عرفان،غلام مجتبیٰ،الیاس خان،میاں محمد اشرف،سارہ سہیل،عاصم شجاع،حیدر بٹ،رفعت بابا،ممتازآرزو،علی ناصر،حرعباس نقوی،ڈاکٹرتیمورالرحمان،افضل خاموش،محمداقبال ،شبیرآذاد،ندیم سبتین،خدابخش بلوچ،پروفیسر جمیل عمر، لال بخش رند،رحیم  بخش آذاد، اظہر انباس، نبی احمد، پروفیسرمسعود، منوبھائی، افتخاربھٹہ، مرزاعزت بیگ، اسلم سروان، سید باقررضوی، سید نسیم  شاہ، قصورگردیزی، کفایت اللہ، مشتاق قریشی ، فاروق سلریا، میرٹھبو،اشفاق سلیم مرزا، وارث رضا،بیرسٹر قربان، پروفسرز خلیق، سردار انور، ذولفقار ایڈوکیٹ،ارشد بلو شہید، کامریڈ فہیم  اکرم، گل نواز بٹ، لیاقت حیات، کامریڈ عمران شان، حبیب الرحمان، پروفیسر نزیر، احسان ایڈوکیٹ ، نزیر خان ناجی، کامریڈ شبیر معیار، ڈاکٹر پروین اور دیگر لاتعداد ساتھیوں نے برپور انداز میں حصہ لیا مگر اس کا فائدہ مزدور،کسان اور معاشرے کےپسے اور مظلوم طبقات کی بجائے امرا،جاگراداروں،سرمایہ داروں اور بالادست طبقات نے حاصل کا ۔

لہذا ماضی کی غلطیوں کی پیش  نظراورملکی صورتِ حال کو مدِنظر رکھتے ہوئے  اس ملک میں موجود تمام کمیونسٹوں،سوشلسٹوں اور ترقی پسندوں کا تاریخی فریضہ ہے کہ ایک ملک گیر سطح پر مظلوم عوام و محنت کش مزدور وکسان اور عوامی مسائل کے حل کی نمائندہ لیفٹ پارٹیوں کی اسلام آباد میں  آل پارٹیزکانفرنس کا قیام مستقل بنیادپرعمل میں لائیں جو تیسری قوت کے طور پرابھرنے کی صلاحت  رکھےاور عوام کو درپیش مسائل کا حل تجویزکرنے کا معاشی اور سیاسی پروگرام دے سکے۔

پاکستان زندہ باد

پاکستان پائندہ باد

جاری کردہ:۔

پریس میڈیا آف سی پی پی، کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان، کمیونسٹ پارٹی سِکریٹریٹ ۔1426۔فتح جنگ روڈ، اٹک کینٹ۔

Tel: 057-2611426 Fax: 057-2612591

Mob: 0300-9543331

Web: www.cpp.net.pk  E-Mail: cpp@cpp.net.pk