(لیفٹ الائنس کی تشکیل ملکی سطح پر )

کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان (سی پی پی) لیفٹ الائنس کی ملکی سطح پر تشکیل کے لیئے اسلام آباد پریس کلب میں ایک سیمینارمنعقد کرنےجارہی ہےجس میں پاکستان میں موجود تمام کمیونسٹ، سوشلسٹ،ترقی پسند،پروگریسواور لیفٹ پارٹیوں کے لیڈران اور کارکنوں کو دعوت دی جارہی ہے۔ یہ سیمینار ہم نے اپریل میں منعقد کرنے کا ارادہ کیا تھا مگر کوروناوائرس کی وبائی مرض اور لاک ڈاون کی وجہ سے اس سیمینار کو منسوخ کرناپڑا۔ اب جیسے ہی حالات اچھے ہوں گے توآپ تمام دوستوں کوتاریخ سے آگاہ کردیا جائے گا۔ امیدِواثق ہے کہ آپ ہمارے اس دعوت نامہ کو قبول فرمائیں گے اور سیمینار میں شرکت کریں گے۔ تمام  دوستوں اور ساتھیوں سے درخواست ہے کہ وہ اپنی اور اپنی پارٹی کی رائے سے آگاہ کریں ۔ شکریہ۔

(لیفٹ الائنس کی تشکیل ملکی سطح پر )

ساتھیو اور دوستو:۔ کوروناوائرس کی وبا نے سرمایہ داری اور شوشلزم کے نظام کے فرق کو بالکل واضح کر دیا ہے۔ کورونا وائرس کی وبا پوری دنیا بشمول پاکستان میں پھیل چکی ہے اور اب تک سب سےذیادہ  اموات سرمایہ دارانہ ممالک جس میں امریکہ سرِفہرست ہے ہو رہی ہیں۔ اس خطرناک کورونا وائرس کی ابھی تک کوئی ویکسین یا مکمل علاج دریافت نہیں  ہواہےسوائے مکمل لاک ڈاؤن کے۔ اس وائرس سے بچنے کا ایک ہی موئثر طریقہ ہے جو اب تک سامنے آیا ہے کہ ہر شہر میں رہنے والے لوگ آپس میں ایک دوسرے سے ہاتھ ملانے، گلے ملنے، بچوں کو پیارکرنےسے گریز کریں اور سماجی تعلق ختم کرنے سے ہی ممکن ہے۔ ان تمام حفاظتی تدابیر سے بچنا صرف لاک ڈاؤن میں ہی ممکن ہے۔ یہ وبائی وارئس اور مرض چین کےصوبہ ہوبائی کےشہر ووہان سے شروع ہوئی اور دیکھتے ہی دیکھتے تمام دنیا کے ممالک میں پھیل گئی ۔ چین ایک سوشلسٹ ملک ہے جہاں کمیونسٹ پارٹی آف چائنہ کی حکومت ہے۔ انہوں نے بہتر حکمتِ عملی سے 4632 افراد کی ہلاکت کے بعد اس موزی مرض پر مکمل قابو پا لیا ہےاور اب سوشلسٹ چائنہ میں لوگ آرام سے اپنی زندگی بغیر کسی خوف وخطر کے گذاررہے ہیں۔ چین کی کمیونسٹ حکومت نے اس کورونا وائرس کو روکنے کے لیئے ووہان کے شہرمیں 76دن مکمل لاک ڈاون یعنی کرفیو کا نفاذکیا اور ان 76دنوں میں چین کی کمیونسٹ حکومت نے ڈیڑھ کروڑکی آبادی کو ان کے گھر کی دہلیز پر صبح کا ناشتہ، دوپہر اور رات کا کھانا اور شام کی چائے کے علاوہ ہرضرورتِ زندگی کی اشیافراہم کیں۔ چین کی کمیونسٹ حکومت نے یہ تمام اخراجات خود اپنی سوشلسٹ معیشت کی بنیاد پر لوگوں کو بلا امتیاز فراہم کیئے۔ چین کی کمیونسٹ حکومت نے نہ کسی سرمایہ داریا سرمایہ دارنہ ممالک سےچندے کی اپیل اور نہ ہی اپنی عوام کی عزت وآبروکومجروع کیاجبکہ ہمارے ملک پاکستان میں جہاں نیم سرمایہ دارانہ وجاگیردارانہ نظام اورمعیشت ہے،صرف جزوی لاک داؤن سے ہی غریب،مزدور،کسان،دیہاڑی داراور سفید پوش طبقہ بھوک وافلاس کا شکار ہےاورانتہائی مشکل حالات سے گذر رہا ہے۔ پاکستان کی اسلامی حکومت اوروزیرِاعظم عمران خان کی ریاستِ مدینہ اورصوبہ سندھ میں آصف زرداری وبلاول بھٹو کی پاکستان پیپلزپارٹی کی حکومت میں جس طرح غریب،مزدور،کسان ا وردیہاڑی دارطبقہ کی عزت وآبرو مجروع  کر کےمددہو  رہی ہےوہ سب ہمارےاور قوم کے سامنے ہے۔عمران خان صبح وشام کوروناوائرس پرقابو پانے پر چین کی تعریف تو کرتے ہیں مگر پاکستانی قوم کو یہ نہیں بتاتے کہ چین کی ریاستِ مدینہ میں سوشلزم کا نظام نافذ ہے۔ اس کورونا وائرس نے تمام دنیا کی بڑی طاقتوں کو ایک واضح پیغام دیا ہے کہ ایٹمی اسلحہ اور جنگیں سامان کی بجائے وہی پیسہ انسان کی معاشی حالت بہترکرنے اور صحت پر خرچ کیا ہوتا تو اس کے بہتر نتائج نکلتے۔

ساتھیو اور دوستو:۔  ہمارے ملک میں اب تک چار مار شل لاء لگ چکے ہیں ۔ پہلا مارشل لاء 7اکتوبر1958ء کو جنرل محمد ایوب خان نے لگایا ۔ دوسرا مارشل لاء 25مارچ 1969ء کو جنرل محمد یحییٰ خان نے لگایا۔تیسرامارشل لاء 5جولائی 1977ء کو جنرل محمد ضیاء الحق نے لگایا اور چوتھا مارشل لاء 12اکتوبر1999ء کو جنرل پرویز مشرف نے لگایا۔ اس طرح فوج نے 72سالہ ملکی تاریخ میں 36سال براہ راست حکمرانی کی اور اس وقت بھی فوج بلواسطہ بذریعہ عمران خان بر سرِاقتدار ہے۔ عمران خان، پاکستان تحریک انصاف اور ان کی اتحادی جماعتوں کی حکومت بھی فوج کی مرہون منت ہے اور بد قسمتی سے ہمارے پیارے ملک پاکستان میں حقیقی سول بالا دستی ابھی تک عملاً ناپید ہے۔

ہمارے ملک میں جب بھی مارشل لاء لگا اور جمہوریت کی بحالی کی جدو جہد کی گئی تو ہمیشہ ہی کمیونسٹوں،سوشلسٹوں اور ترقی پسندوں نے جمہوریت کی بحالی کے لئے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور جارحانہ انداز اختیار کیا مگر چونکہ یہ سب کچھ انٹر ازم کی بنیاد پر ہوا اس لئے بحالی جمہوریت کی جدوجہد میں کمیونسٹ، سوشلسٹ او ر ترقی پسند عناصر ہراول دستے کے طور پر نظر نہ آئے اورنہ ہی ان کی قربانیوں کی عوام میں کوئی واضع اور ٹھوس شناخت ہوئی ۔

حالانکہ یہ حقیقت اپنی جگہ مسلمہ ہے کہ ملک میں جب بھی مارشل لاء لگا تو کمیونسٹوں، سوشلسٹوں اور ترقی پسندوں نے اس کا کبھی اور کسی صورت میں ساتھ نہ دیا بلکہ اس کی بھرپور مخالفت کی جبکہ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ان چار مارشل لاؤں کا ساتھ اس ملک کی تمام دیگر مذہبی اور سیاسی پارٹیوں نے دیا، صرف فرق اتنا ہے کہ پیپلز پارٹی اور اس کی چیئرپرسن بے نظیر بھٹو نے 12اکتوبر1999ء کے جنرل پرویز مشرف کے مارشل لاء کی حمایت کی تو 5جولائی 1977ء کے جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء کی حمایت اس وقت پاکستان نیشنل الائنس میں شامل تمام سیاسی پارٹیوں بشمول مرحوم بابائے جمہوریت نوابزادہ نصراللہ خان نے بڑی ڈھٹائی سے کی اور جنرل ضیاء الحق آمریت کو ان تمام موقع پرست سیاست دانوں نے اس وقت تقویت بخشی تھی جبکہ اس وقت کے مشہور کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کے رہنما جام ساقی و ہ واحد سیاسی رہنما تھے جوجنرل ضیاء الحق کی پوری آمریت میں جمہوریت کی بحالی اور مظلوم و غریب عوام کے غصب شدہ معاشی اور سیاسی حقوق کی خاطر دس سال پابند سلاسل رہے اور قید تنہائی کی اذیتیں خندہ پیشانی سے برداشت کیں۔

ساتھیو!جبکہ یہ بھی ایک مسلمہ حقیقت ہے اور تاریخ اس بات کی گواہ ہےکہ ایوبی  آمریت کے خلاف بھی عملی طور پرجدوجہد اور مزاحمت اس وقت کے نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے مرکزی صدرڈاکٹر رشید حسن خان، سابق صدرمعراج محمد خان اور دیگر ترقی پسند ساتھیوں نے ہی کی تھی۔ اس بات میں بھی کوئی شک و شبہ نہیں ہے اور تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ ایوبی آمریت سے لیکر مشرف کی آمریت تک، پاکستان میں عملی طور پر جمہوریت کی بحالی، آمریت سے نجات، حقیقی سول بالادستی کے قیام اور سوشلزم کے فلسفے کو اجاگر کرنے میں کمیونسٹ رہنماحسن ناصرونذیرعباسی شہید،داداامیرحیدر،سیدسجادظہیر،فیض احمد فیض،میجرمحمداسحاق،مرزا ابراہیم،دادافیروزالدین منصور،سبط حسن، سی آر اسلم، سردار شوکت علی،جلال الدین بخاری، کا مریڈامام علی نازش، اسلم رحیل مرزا، زین الدین خان لودھی، پروفیسر ایرک سپرین، پروفیسر ڈاکٹر عزیزالدین، پروفیسرجمال نقوی، پروفیسرحامدہاشمی، محمود احمدشاہ،این ایس ایف کے شیر افضل ملک، سرور، ہاشمی،ہارون،حسن رضارضوی،اےودود،علی احمد،منٹو،آغا جعفر،ڈاکٹر سید اختراحتشام،عاصم سجاد اختر،عالیہ امیرعلی ،یوسف مستی خان،سہیل سانگی،  بشیر شیر، امر لال، احمدکمال وارثی، قاضی امداد، مولا بخش خاصخیلی، منصورسعید، احمد ندیم قاسمی،افضل بنگش ،چوہدری بشیر جاوید، بشیر الاسلام، ماسٹر الف دین، چوہدری مراد علی، سعید احتر،شاہد ہاشمی،دلاور خان، کاکا صنوبر، ریٹائرڈ صوبیدار محمد حسین اور دادا امیر حیدر کی ستر سالہ ہمشیرہ، ڈاکٹر اعزاز نذیر، لطیف افغانی، اسلم اظہر، نسرین اظہر، مولانا بھاشانی،کنیز فاطمہ،  عابدحسن منٹو، مختار احمد بٹ، حبیب جالب، چودھری فتح محمد، خواجہ سلیم، سو بھو گیان چندانی، عثمان بلوچ، ملک محمد اسلم، طارق لطیف، چودھری فتح محمد، چوہدری مسعود الحسن، طاہرہ مظہر علی خان، ناظر علی قاسم، میر غوث بخش بز نجو، سردار  خیر بخش مری، افراسیاب خان خٹک، شبیرشر، نرنجن کمار، جبار خٹک، نعیم ایڈوکیٹ، مشتاق ہاشمی، زبیر، نیازی، امداد چانڈیو ، شیرمحمد منگر یو، محمد خان سولنگی، گھنشا امپر کاش، رسول بخش پلیچو، محمد رمضان، حسن رفیق، امتیاز عالم، ملک انور، استاد فضل دین، خالدمحمود، خاوررضوی، احمد وحید اختر،پرویز اختر ملک، پروفیسر منظور احمد، فردوس خان، فقیرمحمد، معراج گل خٹک، مختار باچہ، ڈاکٹر لال خان،  فاروق طارق، طفیل عباس، ذکی عباس، نعیم قریشی ایڈووکیٹ، شوکت علی چوہدری، زبیر الرحمان، زاہدہ حنا، ڈاکٹر مبشر حسن، غنویٰ بھٹو، علی احمدپالی پوٹو،سیدسلیم شاہ، عمرسیال،ظہور احمد کھوسہ،محمد عباس سفیر،چوہدری منیر حسین، فانوس گجر،یوسف مستیٰ خان، اختر حسین، عابدہ چویدری ،عظمت شاہ جہان، پروفیسر شاہ جہان، شازیہ خان، فرمان علی،جلیلہ حیدر، باباجان، عامر رشید، عاصم سجاد اختر، عالیہ امیرعلی،ظہوراحمد،بشیر بٹر، عابدبٹر،طوبہ سید،نرگس خٹک، احفاظ الرحمان،شہاب خٹک، آغا بختیار،فرزانہ باری، نثار احمد شاہ، اسرار صافی، فرحت عباس،حسن عسکری، جواد احمد، ڈاکٹر شہنازخان،حسیب الحسن، اسفندیارخان، مقصودحسین خان، محمد طارق اعوان، ڈاکٹر روبینہ عنایت،محمد رزاق،عبدالجبار،فتح یاب علی خان، سالار محمدشاہ علی،انقلابی گجر خان، شیر علی باچہ،صوفی عبدالخالق بلوچ،گل حیدر، یوسف انور،وارث خان، افضل خان لالہ،مشتاق چودھری،فہیم عامر،عادل محمود،صابر علی حیدر،ڈاکٹر ستارکاکر،طارق محمود، مصباح رشید،حافظ ناصر،شیر بھٹی،میاں اشرف،اعظم زرکون،آصف علی چودھری،ایم یعقوب،حنیف رامے،محمد اکبر،فضلِ واحد،نذیرشہزاد،نذر مینگل،عامر علی جان،محسن ابدالی،احسان الحق،یونس اقبال،علی رضا،شہیب قادر،علی آفتاب،سلیم راز،فہمیدہ ریاض،منظور احمد راضی،عاشق حسین چودھری،محمد نسیم راوٗ،قاضی نعمت اللہ،رووف خان،ملک محمد اکرم کنڈی،امتیازالحق،عرفان،غلام مجتبیٰ،الیاس خان،میاں محمد اشرف،سارہ سہیل،عاصم شجاع،حیدر بٹ،رفعت بابا،ممتازآرزو،علی ناصر،حرعباس نقوی،ڈاکٹرتیمورالرحمان،افضل خاموش،محمداقبال ،شبیر آذاد،ندیم سبتین،خدابخش بلوچ،پروفیسرجمیل عمر، لال بخش رند،رحیم بخش آذاد، اظہر انباس، نبی احمد، پروفیسر یوسف، پروفیسرمسعود، منوبھائی، افتخاربھٹہ، مرزاعزت بیگ، اسلم سروان، سید باقررضوی، سید نسیم شاہ،قصورگردیزی، کفایت اللہ، مشتاق قریشی ، فاروق سلریا، میرٹھبو،اشفاق سلیم مرزا، وارث رضا، بیرسٹر قربان، پروفیسر خلیق، سردار انور، ذولفقار ایڈوکیٹ،ارشد بلو شہید، کامریڈ فہیم اکرم، گل نواز بٹ، لیاقت حیات، کامریڈ عمران شان، حبیب الرحمان، پروفیسر نزیر، احسان ایڈوکیٹ، نزیر خان ناجی، کامریڈ شبیر معیار، ڈاکٹر پروین اوردیگر لاتعداد ساتھیوں نے برپور انداز میں حصہ لیا مگر اس کا فائدہ مزدور،کسان اور معاشرے کےپسے اور مظلوم طبقات کی بجائے امرا،جاگیرداروں،سرمایہ داروں اور بالادست طبقات نے حاصل کیااور سیاسی طور پر بھی پاکستان کی مجموعی صورت حال میں لیفٹ کی سیاست کو عوام میں مقبول کرنے میں ناکام رہے۔ یہ ہی وہ نقطہ ہے جس کی طرف میں آپ کی توجہ چاہتا ہوں کہ مندرجہ بالا ہمارے دوستوں اور رہنماوں جن میں کچھ لوگ وفات پاچکے ہیں اور جواس وقت حیات ہیں ان میں سے بعض نے اپنی پوری زندگی یا زندگی کا قیمتی حصہ سوشلزم اور لیفٹ کی سیاست کی نظر کیا مگر اس کا کوئی مثبت اور خاطرخواہ نتیجہ ابھی تک پاکستان کی سیاست میں نہیں نکلاہےاور ہم وقت کے ساتھ سیاسی طور پر کمزور ہو رہےہیں ۔ لہذا ماضی کی غلطیوں کی پیش نظراورملکی صورتِ حال کو مدِنظر رکھتے ہوئے  اس ملک میں موجود تمام کمیونسٹوں،سوشلسٹوں اور ترقی پسندوں کا تاریخی فریضہ ہے کہ ملکی سطح پر ایک لیفٹ الائنس کا قیام مستقل بنیادپرعمل میں لائیں جو تیسری قوت کے طور پرابھرنے کی صلاحیت رکھے۔ یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہےکہ ماضی میں جتنے بھی لیفٹ الائنس ہمارے ملک میں بنے ان کا کوئی بھی مثبت نتیجہ نہیں نکلاہے۔

ساتھیو:۔ہمارےملک میں موجود تمام مذہبی اوربورژوا سیاسی جماعتوں کا نہ کوئی ٹھوس معاشی پروگرام ہے اور نہ ہی وہ جمہوریت سے مخلص ہیں اور پھر یہ کوئی اصولی سیاست بھی نہیں کرتے ہیں ۔ یہ اپنی بنیاد بنانے کے لئے کوئی بھی جھوٹ بول سکتے ہیں، ہر قسم کی سماجی برائیاں ان کی تمام تر لیڈر شب میں بدرجہ اتم موجود ہیں۔ اقتدار سے باہر ہوں تو اقتدار حاصل کرنے کے لئے کسی بھی مروجہ اصول کو بالائے طاق رکھ کر ہر قسم کی مخالف پارٹی سے مل کر اتحاد بنا لیتے ہیں۔ نواز شریف حکومت کے خلاف آخری سال 1999ء میں بنائے گئے گرینڈ ڈیمو کریٹک الائنس میں صرف ایک نقطہ پر اتحاد تھا اور وہ نقطہ نواز شریف کو اقتدار سے باہر نکالنا تھا۔ جس کے لئے عمران خان، طاہر القادری، بے نظیر بھٹو، اسفند یار ولی، نوابزادہ نصراللہ وغیرہ سب اکٹھے تھے اور اسے باہر نکالنےکے لئے فوج اور عدلیہ سے بار بار اپیلیں کر رہے تھے۔ 12اکتوبر 1999ء کے جنرل پرویز مشر ف کے فوجی اقدام کو نظریہ ضرورت کے تحت ان تمام نام نہاد ”جمہوری”قوتوں نے درست، جائز اور لازمی قرار دیا اور اسی قسم کی صورتحال نواز شریف نے بے نظیر بھٹو کی حکومت کو ختم کرنے کے لئے جنم دی تھی اور اب یہ بے اصول اور موقع پرست تمام سیاست دان بشمول نواز شریف ، شہباز شریف ، مریم نواز، بلاول بھٹو اور مولانا فضل الرحمن اور دیگر سیاسی رہنما آل پارٹیز کانفرس کی آڑ میں علی بابا اور چالیس چور وں کی طرح بڑی ڈھٹائی سے اسلام آباد میں جمہوریت کی بحالی کے لئے کچھ عرصہ پہلے اکٹھے ہوئے تھے اورآئندہ بھی اکٹھےہوتے رہیں گے اور جمہوریت کی بحالی کا روپ آلاپتے رہیں گے جبکہ حقیقتاً ان کے نزدیک جمہوریت کی بحالی کا مطلب کنٹرول  جمہوریت اور نام نہاد سول حکمرانی کے ذریعے لوٹ کھسوٹ اور اس گلے سڑے اوراستحصالی نظام کو جاری و ساری رکھنے کے علاوہ اور کوئی ٹھوس معاشی پروگرام نہیں ہے۔

لہذا ایسی ملکی صورت حال میں کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کی سیاسی رائے ہے اور وقت کاتقاضابھی یہی ہے کہ لیفٹ الائنس کا قیام مستقل بنیادوںپر ملک گیر سطح پر بنایا جائے۔ اس کے لئے تمام کمیونسٹوں، سوشلسٹوں اور ترقی پسندوں کو اپنی صلاحیتیں بروئے کار لانی چائیں اور اس لیفٹ الائنس کے قیام اور بنانے کے لئے ملک میں موجود تمام بائیں بازو کی ان پارٹیوں اور انفرادی گروپوں سے بات چیت اور روابط پیدا کرنے چائیں جو مار کسزم، لینن ازم، ماؤازم،سٹالن ازم،ٹراٹسکی ازم،سوشلزم اور کمیونزم کے نظریات کوپاکستان کے عوام کے مسائل کا حل سمجھتے ہیں ۔

ساتھیو:۔یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستان میں معاشیات اور جمہوریت کی بحالی کا مسئلہ جتنا کمیونسٹوں،سوشلسٹوں اور ترقی پسندوں کے لئے اہم اور ضروری ہے،اتنا ان نام نہاد جمہوری قوتوں اور مذہبی اور سیاسی پارٹیوں کے لئے ہرگز نہیں کیونکہ ہم کمیونسٹ و سوشلسٹ سمجھتے ہیں اور پاکستان کی اب تک کی تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ مارشل لاء کی حکومتوں اور فوج کی حمایت یافتوں حکومتوں میں محنت کشوں اور غریب و مظلوم عوام کو کوئی معاشی ریلیف نہیں ملتا اور ان کے حالات زندگی میں کوئی نمایاں اور گراں قدر تبدیلی واقع نہیں ہوتی جبکہ مارشل لاء کی حکومتوں یا فوج کی حمایت یافتوں حکومتوں میں اگر کسی کو فائدہ پہنچتاہے تو وہ صرف جاگیردار، سرمایہ دار، مراعات یافتہ امراء طبقہ، سیاست دان اورخود فوج ہے کہ جن کی ہر من مانی اور زیادتی کا قانونی تحفظ مارشل لاء کی حکومت یا نام نہاد سویلین حکومت ان کو فراہم کرتی ہے اور دوسری طرف محنت کشوں، مزدوروں، کسانوں اور بے بس عوام کے پر امن حق ہڑتال، جلسہ و جلوسوں اور احتجاج کو قانوناً ممنوع قرار دیتی ہے اور یوں ان ظالم طبقات کے خلاف جدوجہد کرنے والے مظلوم طبقات کو ہر قسم کی انتقامی کارروائی سے گزرنا پڑتاہے اور ساتھیو! پاکستان کی مارشل لاء اور نام نہاد سویلین اور سیاست دانوں کی حکومتوں کی تاریخ بشمول موجودہ حکمران عمران خان اس ظلم و جبر سے بھری پڑی ہیں اور اب کوئی بات،واقعہ اور قصہ اس ضمن میں ایسا نہیں ہے جو عوام سے پوشیدہ ہواور بقول فیض احمد فیض ۔

”چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اٹھاکے چلے ”

عظیم ساتھیو:۔ پاکستان میں نظام کی تبدیلی، معاشیات اور جمہوریت کی بحالی کمیونسٹوں، سوشلسٹوں اورترقی پسندوں کے لئے موت و حیات کا مسئلہ ہے ۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ کے اس نازک ترین موڑ پر ہم اب کمیونسٹوں اور سوشلسٹوں کو ہی اس ملک میں جمہوریت کی جنگ لڑنی ہو گی اور ہم کمیونسٹوں اور سوشلسٹوں کے نزدیک جمہوریت کی بحالی صرف ایک ووٹ کے حق تک محدود یا مشروط نہیں بلکہ یہ نظام میں معاشی، سیاسی، سماجی اور ثقافتی انقلاب اور انصاف کا نام ہے ۔علاوہ ازیں یہ حقیقت اپنی جگہ مسلمہ ہے کہ اس ملک میں کمیونسٹوں، سوشلسٹوں اور ترقی پسندوں سے زیادہ اور کون نظام کی تبدیلی اور جمہوریت پسند ہو سکتا ہے، صرف فرق اتنا ہے کہ مذہبی اور سیاسی جماعتوں کی نگاہ میں یا سرمایہ دارانہ وجاگیردارانہ نظام حکومت میں نظام کی تبدیلی اور جمہوریت کی بحالی صرف ایک ووٹ کے حق تک محدود ہے جبکہ ہم کمیونسٹوں،سوشلسٹوں اور ترقی پسندوں کےنزدیک نظام کی تبدیلی اور جمہوریت کی بحالی صرف ایک ووٹ کے حق تک محدود یا مشروط نہیں بلکہ یہ نظام میں معاشی، سیاسی، سماجی اور ثقافتی انصاف کا نام ہے اور یہی وہ سیاسی جدوجہد ہے جس کے لئے ایک ملک گیر سطح پر لیفٹ ا لائنس مندرجہ ذیل سیاسی ایشوز اتفاق رائے کی بنیاد پر ایک لیفٹ الائنس کا قیام فوری طور مستقل بنیادوں پراب ناگزیرہو چکاہے۔

-1         مہنگائی و بے روزگاری کا خاتمہ۔           

-2         جاگیرداری نظام کا خاتمہ ۔

-3         قبائلی و سرداری نظام کا خاتمہ ۔          

-4         سرمایہ داری نظام کا خاتمہ۔

-5         نجکاری کا خاتمہ ۔                                

-6         یونین سازی کی ضمانت ۔

-7         سوشلسٹ وکمیونسٹ معیشت کاقیام ۔

-8         دفاعی بجٹ میں کمی ۔

-9         ہر شہری کو بلا امتیاز ملازمت کی ضمانت ۔

– 10     حقیقی معنوں میں سول بالا دستی کے قیام کے لئے جدوجہد۔

-11      امریکی سامراج اور اس کی پالیسیوں کے خلاف جدوجہد۔

-12      آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک کے قرضوں کی واپسی سے انکار۔

-13      خواتین کے بنیادی انسانی حقوق کا تحفظ اور خواتین کی معاشی، سماجی اور سیاسی سرگرمیوں میں شرکت کویقینی بنانا۔

-14      پاکستان میں بسنے والی تمام قوموں کو ان کے قدرتی وسائل پر مکمل اختیار کی ضمانت۔

-15      پاکستان میں بسنے والی تمام قوموں مثلاً بلوچی، سندھی،پنجابی، پشتون اور سرائیکی وغیرہ کو قومی اسمبلی،صوبائی اسمبلیوں، فوج، سول بیوروکریسی اور دیگر اداروں میں برابر کی نمائندگی کی ضمانت۔

-16      پاکستان میں بولے جانے والی تمام قومی زبانوں بلوچی، سندھی، پنجابی، پشتو، سرائیکی اور ہندکو وغیرہ کو ترقی کے برابر مواقع اور قومی میڈیا پر برابر نمائندگی کی ضمانت۔

-17      صوبائی خود مختاری کی ضمانت ۔

-18      قومی صنعت کے تحفظ کے لئے ملٹی نیشنل کمپنیوں کی معیشت میں مداخلت و تسلط سے گلو خلاصی ۔

-19      بلاامتیاز سب اداروں بشمول فوج اور عدلیہ کا احتساب ۔

-20      اقلیتوں کے لئے تحفظ اور جداگانہ انتخاب کی جگہ مخلوط انتخاب کی ضمانت۔

-21      قومی و صوبائی اسمبلی اور سینٹ کے انتخابات متناسب نمائندگی کی بنیاد پر۔

-22      بلدیاتی انتخابات سیاسی و جماعتی اور متناسب نمائندگی کی بنیاد پر۔

-23      مادری زبان کو مڈل تک لازمی مضمون قرار دینا۔

-24      کشمیر کی حق خود ارادیت کی عالمی ضمانت کے لئے جدوجہد۔

-25      بلوچستان و سندھ میں قحط زدگان کی مدد کے لئے ٹھوس اقدامات۔

-26      بیگارکیمپوں کاخاتمہ۔

-27      طبقاتی نظام تعلیم کا خاتمہ اور میٹرک تک ہر شہری کو مفت تعلیم کی ضمانت اور دیگر معاملات جن پر اتفاق رائے ہو۔

جاری کردہ:

(انجینئر جمیل احمد ملک )

مرکزی چیئرمین

کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان(CPP)

کمیونسٹ پارٹی سیکرٹریٹ

1426۔ فتح جنگ چوک، اٹک کینٹ

فون پارٹی سیکرٹریٹ : 057-2611426

فیکس پارٹی سیکرٹریٹ:057-2612591

موبائل نمبر:0300-9543331

ای میل:cpp@cpp.net.pk

ویکی پدیا: https://en.wikipedia.org/wiki/Communist_Party_of_Pakistan

ویب سائٹ :  http://www.cpp.net.pk