پاکستان کی موجودہ سیاسی صورتحال پر چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال اور سپریم کورٹ کے دیگر ججوں کے نام کمیو نسٹ پارٹی آف پاکستان کا ایک کھلا خط۔

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال اور سپریم کورٹ کے دیگر ججوں کے نام ایک کھلا خط۔

 

          مسٹرجسٹس عمر عطا بندیال،چیف جسٹس آف پاکستان

          مسٹرجسٹس قاضی فائزعیٰسی

          مسٹرجسٹس سردارطارق محمود

          مسٹرجسٹس اعجازالحسن

          مسٹرجسٹس مظہرعالم خان

          مسٹرجسٹس سجادعلی شاہ

          مسٹرجسٹس سیدمنصورعلی شاہ

          مسٹرجسٹس منیب اختر

          مسٹرجسٹس یحییٰ آفریدی

          مسٹرجسٹس امین الدین خان

          مسٹرجسٹس سیدمظہرعلی اکبرنقوی

          مسٹرجسٹس جمال خان مندوخیل

          مسٹرجسٹس محمدعلی مظہر

          مسزجسٹس عائشہ اے ملک ،سپریم کورٹ آف پاکستان، اسلام آباد۔

 

جنابِ عالی!

 

سائل انجنیئر جمیل احمد ملک چیئرمین کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان (سی پی پی) مودبانہ درج ذیل عرض کرتا ہے:۔

 

سابق وزیراعظم پاکستان اور پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے ایک پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا ہے کہ انہوں نے سپریم کورٹ کو ایک خط لکھا ہے کہ پر امن احتجاج ہر شہری کا بنیادی حق ہے اور اس ضمن میں سپریم کورٹ اب اپنا آئینی رول ادا کرے۔سائل بھی اس سلسلے میں کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کی طرف سے چند گذارشات آپ کی خدمت میں پیش کر رہا ہےاور آپ سےمودبانہ درخواست ہے کہ عمران خان کے خط کے ساتھ ہماری پارٹی کابھی نقظہ نظر سنا جائے جو درج ذیل ہیں:-

 

کمیونسٹ پارٹی مزدور، کسان اور پسے ہوئے مظلوم اور غریب عوام کی ایک سیاسی جماعت ہے جو دنیا کے تقریبا ہر ملک میں موجودہے۔ دنیا کے کچھ حصوں چین،کیوبا،ویت نام اورشمالی کوریامیں کمیونسٹ پارٹی ایک حکمران جماعت ہے اور باقی ممالک میں یہ حکمران جماعتوں کی پالیسیوں اور نظام کے خلاف جدوجہدکر رہی ہیں۔ کمیونسٹ پارٹی کا بنیادی اور سیاسی منشور کارل مارکس کےسوشلزم کے نظریات پر مبنی ہے۔کمیونسٹ پارٹی اپنی شخصی اور معروضی حالات کے پیش نظر سیاسی میدان میں سماجی تبدیلیوں کے لیے ، انسان کےہاتھوں انسان کے استحصال سے پاک معاشرہ کے قیام اور پسماندہ اور غریب عوام کی فلاح و بہبود اورسول بالادستی اور حقیقی جمہوریت کے لیےسیاسی جدوجہد کر رہی ہے۔ پاکستان میں کمیونسٹ پارٹی 1948 میں قائم ہوئی لیکن 1951 میں امریکی ہدایات کے تحت کمیونسٹ پارٹی پر پابندی عائد کر دی گئی اور اس کی اعلیٰ قیادت اورپارٹی ورکرزکو نام نہاد ‘راولپنڈی سازش کیس’ میں گرفتار کر کے قید کر لیا گیا اور پارٹی پرپابندی عائدکردی گئی۔تاہم 1999میں کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کو پھر فحال کیا گیا اور پارٹی نے ایک کھلی اور اوپن پارٹی کے طور پر سیاسی کام شروع کیا۔

 

کمیونسٹ پارٹی پاکستان کی وہ واحد سیاسی پارٹی ہے جس نے پاکستان میں کبھی بھی کسی آمر اور فوجی حکومت کی حمایت نہیں کی جبکہ دیگر تمام سیاسی جماعتوں نے چند ایک کو چھوڑ کر فوجی حکومتوں اور جنرل ایوب ، جنرل یحییٰ ، جنرل ضیاء الحق اور جنرل مشرف جیسے آمروں کی حمایت کی۔ پارٹی کےسابق سیکرٹری جنرل حسن ناصر کو 1962 میں ڈکٹیٹر جنرل ایوب نے جیل میں تشدد کرکے قتل کیا تھا اور پارٹی کےایک اور سابق سیکرٹری جنرل جام ساقی 1977 سے 1987 تک ڈکٹیٹر جنرل ضیاء الحق کے دورِحکومت میں دس سال سے زیادہ طویل قید میں رہے۔ کامریڈ نذیر عباسی ، سی پی پی کی مرکزی کمیٹی کے رکن اور دیگر کو بھی فوجی حکومتوں کے دوران ڈکٹیٹر جنرل ضیاء الحق نے تشدد کر کے قتل کیا۔ اس خط سے پیشتر بھی سائل نےجنرل پرویزمشرف کے خلاف آئین پاکستان کی آرٹیکل 6کے تحت غداری کے مقدمے،جنرل پرویز مشرف کی وردی میں صدارتی الیکشن اورdual office، سابق چیف جسٹس افتخارمحمدچوہدری کی برطرفی کے خلاف اور انکی بحالی،آئین پاکستان 1973 میں ایل ایف او اور 17 ویں آئینی ترمیم کو چیلنج کیا، Contempt of Court Act, 2012 کی منسوخی،فوجی عدالتوں کے قیام کے خلاف اور دیگر کئی عوامی مفادکی آئینی پٹیشن میں وہ خودکمیونسٹ پارٹی کی جانب سے سپریم کورٹ آف پاکستان میں متعدد بارپیش ہو چکے ہیں۔

 

کمیونسٹ پارٹی نے سول بالادستی اور حقیقی جمہوریت کی ہمیشہ جدوجہد کی مگر بدقسمتی سے ہماری عدلیہ، ملٹری ایسٹبلشمنٹ،اینٹیلیجنس ایجنسیوں  اور پاکستان کی تمام سیاسی ومذہبی جماعتوں کا کردار سول بالادستی اور حقیقی جمہوریت کے منافی رہا ہے ۔ہمارے نزدیک  سول بالادستی اور حقیقی جمہوریت سے مراد یہ ہے کہ جس میں تمام ادارےبشمول عدلیہ ،فوج اوراینٹیلیجنس ایجنسیاں نیوٹرل نہیں بلکہ آئینِ پاکستان1973کےتحت جو حلف اٹھا رکھا ہے اسکی پاسداری کریں۔   

  

عمران خان کہہ رہے ہیں کہ پر امن احتجاج ہر شہری کا بنیادی حق ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ جب یہ وزیراعظم تھے تو کوئلے کی کانوں میں کام کرنے والے آدم خیل  قوم آخوروال کےمزدوروں نے اپنے مسائل کے حل کے لیے اسلام آبادپریس کلپ میں 14جولائی2020 کو دھرنے کا اعلان کیا اور جب وہ مورخہ 14جولائی کو عملاََاسلام آباد کی حدود میں داخل ہوئے تواسلام آباد  پولیس نےوزیراعظم عمران خان کی ہدایت پر مزدوروں پربےدردی سے شیلنگ اور لاٹھی چارج کیا اوران کو زبردستی دھرنے سے روکا اور اسلام آباد پریس کلب کو چاروں طرف سے پولیس کی بھاری نفری کے ساتھ قبضہ کر لیاتو پاکستان انقلابی پارٹی کے چیئرمین ڈاکٹر مشتاق چوہدری اور سائل نے شدید احتجاج کیا جواس ویڈیو کلپ کے لنک میں سنا جا سکتا ہے https://youtu.be/j119_HLNzjg  مگر عمران خان صاحب اور انتظامیہ نے کوئی توجہ نہ دی۔مزدوروں، کسانوں، طالبعلموں اور پسے اور غریب عوام کے ساتھ اس ملک میں کسی بھی سیاسی  پارٹی کی حکومت ہو اس نے ہمیشہ ظلم و ستم کی انتہا کی ہے اور کبھی بھی اس بات کو تسلیم نہیں کیاکہ پر امن احتجاج ہر شہری بشمول مزدور، کسان اور طالبعلم وغیرہ  کا بنیادی حق ہےاور نہ ہی کبھی سپریم کورٹ نے مزدوروں، کسانوں، طالبعلموں اور پسے اور غریب عوام پر ظلم وستم پر ازخود نوٹس لیا ہے۔

 

سپریم کورٹ میں لینڈ ریفارمزپرورکرز پارٹی پاکستان بنام فیڈریشن آف پاکستان وغیرہ کی دائر کردہ آئینی پٹیشن نمبر 97آف 2011جس میں کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان بھی شریک مقدمہ ہے، وہ کیس 2011سے التوا میں پڑا ہوا ہے اور اس کا فیصلہ ابھی تک سپریم کورٹ نے نہیں دیا ہے جب کہ اس کیس سے انگنت ادرلاتعداد کسانوں کا مستقبل وابستہ ہے۔اس کیس کی آخری سماعت 16جنوری 2014کو ہوئی اور لاتعداد کسان سپریم کورٹ کے فیصلے کے منتظر ہیں مگر یہ کیس بالادست طبقات کے مفادات کے پیشِ نظر سرد خانہ میں پڑا ہوا ہےجبکہ یہ کہا جاتا ہے کہ “Justice delayed is justice denied”

 

پاکستان کے سیاست دانوں نے لانگ مارچ کو بھی مذاق بنا دیا ہے۔دنیا کی تاریخ میں صرف ایک لانگ مارچ ہوا تھا جو چین کے عظیم کمیونسٹ رہنما ماؤزےتنگ نے مسلسل ایک سال اورچھ دن رہا تھا۔پاکستان کے تمام سیاست دان عوام کو بےوقوف بنانے کے لیے چور چور اور کرپشن کے الزامات ایک دوسرے پر لگاکر شارٹ مارچ کے لیے اسلام آباد کا رخ کرتے رہتے ہیں  مگر بدقسمتی سے ہمارا عدالتی نظام کا کوئی بھی ایسا فیصلہ سامنے نہیں آیا ہے ماسوائے جسٹس قاضی فائزعیٰسی کےجو انہوں نے فیض آباد دھرنے کیس میں دیا تھااور چونکہ وہ فیصلہ حقائق اور ملٹری  ایسٹبلشمنٹ اور اینٹیلیجنس اداروں کی ایسے دھرنوں کی پشت پناہی کو عیاں کرتا تھا لہذا اس بنیاد پر اور سپریم کورٹ کے ججوں کی آپس کی چپقلش کی وجہ سے وہ ایک متنازعہ فیصلہ ابھی تک  بنا ہوا ہے۔علاوہ ازیں یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہےکہ کون سا سیاست دان کرپٹ ہے اور کون ایماندارہےاس بابت بھی سپریم کورٹ کا کوئی ایسا انصاف پر مبنی فیصلہ نہیں آیا ہے جس کو نظیر کے طور پر پیش کیا جا سکے۔بدقسمتی سے پاکستان میں آج تک کسی بھی سیاست دان کا کرپشن پر بلا امتیاز احتساب نہیں ہوا ہے اور اگر کوئی احتساب ہوا بھی ہے توپاکستان کی عوام  اسکو یکطرفہ تصور کرتے ہیں۔

 

نہایت احترام کے ساتھ عرض ہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان اور عدلیہ کی مجموعی ساکھ عوام میں اچھی نہیں ہے اور ہمارے ہاں یہ تاثر عوام میں عام پایا جاتا ہے کہ پاکستان کی عدالتیں صرف لٹیروں،چوروں،منشیات فروشوں، قبضہ گروپوں اور امرا اور عیاش طبقات کےتحفض اور مفادات کے لیے ہی ہیں۔سپریم کورٹ آف پاکستان اگر عوام میں اعتماد بحال کرنا چاہتی ہے تو سب سے پہلے جنرل پرویز مشرف کو سپیشل ٹریبونل سے دی جانے والی سزائے موت کے اس فیصلے پر عمل کرائے جو سپیشل ٹریبونل کے سربراہ  اور پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس وقار احمدسیٹھی نے17دسمبر 2019 کودیا تھا اور پھر اس فیصلے کے بعد لاہور ہائی کورٹ نےمورخہ 13جنوری 2020 کویہ فیصلہ دیا تھا کہ سپیشل ٹریبونل کا قیام ہی غلط تھا۔بہرحال عوام میں یہ تاثر عام ہے کہ جو فیصلہ سپیشل ٹریبونل نے دیا ہے وہ بالکل درست ہے اور جو بعد میں فیصلہ لاہور ہائی کورٹ نے کیا ہے وہ انصاف پر مبنی فیصلہ نہیں ہے بلکہ صریحاََ غلط فیصلہ ہےاوریہ فیصلہ دیا نہیں بلکہ زبردستی ملٹری ایسٹبلشمنٹ نے اپنی طاقت کی بنا پر لاہور ہائی کورٹ سے حاصل کیا تھا۔ اب ان دونوں میں کون سا فیصلہ درست ہے اس کافیصلہ  سپریم کورٹ کو فوراََکرنا چاہے تا کہ عوام میں پایہ جانے والایہ تاثر دور ہو سکے کہ سپریم کورٹ صرف سیاست دانوں کو ہی نہیں بلکہ جرنیل کو بھی سزا دینے کی صلاحیت و طاقت رکھتے ہیں۔اس ضمن میں یاد رہے کہ آرٹیکل 6 کےتحت سپریم کورٹ میں جنرل پرویز مشرف کے خلاف غداری کا مقدمہ دائر کرنے کے لیے سب سے پہلی جو آئینی پٹیشن 7ستمبر 2009 میں دائر ہوئی تھی وہ کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کی جانب سے سائل نے خود ہی دائر کی تھی جس کا عنوان تھا کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان بنام فیڈریشن آف پاکستان وغیرہ اور پھر اس مقدمے کی باضابطہ پیروی کرتے ہوئے سائل مسلسل فل بینچ جس کی سرپراہی مسٹر جسٹس جواد ایس خواجہ، مسٹر جسٹس خلجی عارف حسین اور مسٹر جسٹس اعجاز افضل خان کر رہے تھے کےسامنے تمام تواریخ پر 15اپریل 2013سے 3جولائی 2013پیش ہو کر اس کیس کی پیروی کرتا رہا ہےاور بالاآخر سائل اور ایسی دیگر کئی پٹیشنزکی بنا پر سپریم کورت کے حکم مورخہ 3جولائی 2013پر حکومتِ پاکستان نے جنرل پرویز مشرف کے خلاف آئین  پاکستان کے آرٹیکل 6کے تحت مقدمہ کی کاروائی کا آغاز کیا اور اب سائل کی خواہش اور مودبانہ استدعا ہے کہ اس کیس کی اپیل کا فیصلہ جلد کیا جائے۔

 

مسنگ پرسنزہمارے ملک پاکستان کا ایک بہت سنجیدہ مسئلہ ہے۔ کسی کو نظریات کی بنا پر لاپتہ کرنا سب سے بڑا گھناؤنا جرم ہے۔پاکستان کا آئین حکومت ، ملٹری ایسٹبلشمنٹ اوراینٹیلیجنس ایجنسیوں کو یہ اجازت نہیں دیتا ہے کہ وہ کسی بھی پاکستانی شہری کو اسکے نظریات کی بنا پر لاپتہ کریں اور پھر بےدردی سے قتل کر کے اسکی لاش پھینک دیں۔دو بچوں کی ماں اور ایک پڑھی لکھی 30 سالہ شادی شدہ بلوچی لڑکی شاری بلوچ کے خودکش حملے کے بعد روسائے اقتدار کو ان واقعات سے سبق حاصل کرنا چاہے اور سنجیدگی سے مسنگ پرسنز کے رہنماؤں سےبات چیت کے ذریعے اس سنگین مسئلے کا حل نکالیں۔مسنگ پرسنز کے مسئلے پر بدقسمتی سے پاکستان کی کسی بھی حکومت نے سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا ہے جس کی وجہ سے بلوچ، سندھی اور پختون قوم کے نوجوانوں اور خواتین میں شدید غم وغصہ پایا جاتا ہے جس کا تدارک کرنا خود ہمارے اپنے ملکی مفاد میں ہے۔اس مسئلہ پر اس وقت تک صرف اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے سنجیدگی کا مظاہرہ کیا ہے اورکہا  ہےکہ لاپتہ افراد کو عدالت میں پیش کریں یا ریاست کی ناکامی کا جواز دیں۔انہوں نے اپنے حکم نامےمورخہ 28 مئی 2022میں مزید کہا کہ جنرل پرویز مشرف نے اپنی کتاب میں لکھا کہ جبری گمشدگیاں ریاست کی غیر اعلانیہ پالیسی تھی اور ایسا لگتا ہے میڈیا ریاستی طاقت کے غلط استعمال اور بنیادی حقوق کی خلاف ورزیوں کو نظر انداز کرتا ہے یا ترجیح نہیں دیتا۔کمیونسٹ پارٹی کی سپریم کورٹ سے استدعا ہےکہ وہ مسنگ پرسنزکے مسئلے کو اولین حیثیت دیں اور ریاست کےاندر  ریاست کا نوٹس لیں اور اسکا سدِباب اور ازالہ کریں۔

 

آئینِ پاکستان 1973کے آرٹیکل 3کی بابت نہ ہی ریاست نے اور نہ ہی سپریم کورٹ نےکوئی پیش رفت کی ہے۔ یہ آرٹیکل مزدور، کسان، غریب اور پسے ہوئے عوام کو تحفظ فراہم کرتا ہے مگر آج تک پاکستان میں جو معاشی بدحالی اور ناانصافی مزدور، کسان، غریب اور پسے ہوئے عوام کے ساتھ سابق وزیراعظم عمران خان اور موجودہ وزیراعظم شہباز شریف اور ماضی کی تمام حکومتوں نے روا رکھی ہوئی تھیں اس کا مداوا آئینِ پاکستان 1973کے آرٹیکل 3میں موجود ہے مگر ریاست اورحکومت نے اس پر کبھی بھی توجہ نہیں دی ہے اورنہ ہی سپریم کورٹ نے کبھی آئینِ پاکستان 1973کے آرٹیکل 3کے تحت از خود نوٹس لیا ہے۔اصل حقیقت میں پاکستان صرف اور صرف بالادست طبقات، امرا اور رئیس لوگوں کی جگہ ہے۔آئینِ پاکستان 1973کا آرٹیکل 3انگلش اور اردو میں درج ذیل ہیں:۔

Elimination of exploitation

3- The State shall ensure the elimination of all forms of exploitation and the gradual fulfillment of the fundamental principle, from each according to his ability to each according to his work.


استحصال کا خاتمہ۔

مملکت استحصال کی تمام اقسام کے خاتمہ اور اس بنیادی اصول کی تدریجی تکمیل کو یقینی بنائے گی کہ ہر کسی سے اسکی اہلیت کے مطابق کام لیا جائے گااور ہر کسی کو اسکے کام کے مطابق معاوضہ دیا جائے۔

 

یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستان میں معاشیات اور جمہوریت کی بحالی کا مسئلہ جتنا کمیونسٹوں،سوشلسٹوں اور ترقی پسندوں کے لئے اہم اور ضروری ہے،اتنا ان نام نہاد جمہوری قوتوں اور مذہبی اور سیاسی پارٹیوں کے لئے ہرگز نہیں کیونکہ ہم کمیونسٹ و سوشلسٹ سمجھتے ہیں اور پاکستان کی اب تک کی تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ مارشل لاء کی حکومتوں اور فوج کی حمایت یافتوں حکومتوں میں محنت کشوں اور غریب و مظلوم عوام کو کوئی معاشی ریلیف نہیں ملتا اور ان کے حالات زندگی میں کوئی نمایاں اور گراں قدر تبدیلی واقع نہیں ہوتی جبکہ مارشل لاء کی حکومتوں یا فوج کی حمایت یافتوں حکومتوں میں اگر کسی کو فائدہ پہنچتاہے تو وہ صرف جاگیردار، سرمایہ دار، مراعات یافتہ امراء طبقہ، سیاست دان اورخود فوج ہے کہ جن کی ہر من مانی اور زیادتی کا قانونی تحفظ مارشل لاء کی حکومت یا نام نہاد سویلین حکومت ان کو فراہم کرتی ہے اور دوسری طرف محنت کشوں، مزدوروں، کسانوں اور بے بس عوام کے پر امن حق ہڑتال، جلسہ و جلوسوں اور احتجاج کو قانوناً ممنوع قرار دیتی ہےاوراس بات کو تسلیم نہیں کرتی ہیں کہ پرامن احتجاج ہر شخص کا بنیادی حق ہے اور یوں ان ظالم طبقات کے خلاف جدوجہد کرنے والے مظلوم طبقات کو ہر قسم کی انتقامی کارروائی سے گزرنا پڑتاہے اور  پاکستان کی مارشل لاء اور نام نہاد سویلین اور سیاست دانوں کی حکومتوں کی تاریخ بشمول موجودہ حکمران اورسابق حکمران عمران خان اس ظلم و جبر سے بھری پڑی ہیں اور اب کوئی بات،واقعہ اور قصہ اس ضمن میں ایسا نہیں ہے جو عوام سے پوشیدہ ہواور بقول فیض احمد فیض ۔

چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اٹھاکے چلے

پاکستان میں نظام کی تبدیلی، معاشیات اور جمہوریت کی بحالی کمیونسٹوں، سوشلسٹوں اورترقی پسندوں کے لئے موت و حیات کا مسئلہ ہے ۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ کے اس نازک ترین موڑ پر ہم اب کمیونسٹوں اور سوشلسٹوں کو ہی اس ملک میں جمہوریت اور سول بالا دستی کی جنگ لڑنی ہو گی اور ہم کمیونسٹوں اور سوشلسٹوں کے نزدیک جمہوریت کی بحالی صرف ایک ووٹ کے حق تک محدود یا مشروط نہیں بلکہ یہ نظام میں معاشی، سیاسی، سماجی اور ثقافتی انقلاب اور انصاف کا نام ہے ۔علاوہ ازیں یہ حقیقت اپنی جگہ مسلمہ ہے کہ اس ملک میں کمیونسٹوں، سوشلسٹوں اور ترقی پسندوں سے زیادہ اور کون نظام کی تبدیلی اور جمہوریت پسند ہو سکتا ہے، صرف فرق اتنا ہے کہ مذہبی اور سیاسی جماعتوں کی نگاہ میں یا سرمایہ دارانہ وجاگیردارانہ نظام حکومت میں نظام کی تبدیلی اور جمہوریت کی بحالی صرف ایک ووٹ کے حق تک محدود ہے جبکہ ہم کمیونسٹوں،سوشلسٹوں اور ترقی پسندوں کےنزدیک نظام کی تبدیلی اور جمہوریت کی بحالی صرف ایک ووٹ کے حق تک محدود یا مشروط نہیں بلکہ یہ نظام میں معاشی، سیاسی، سماجی اور ثقافتی انصاف کا نام ہےاور آخر میں ہماری سپریم کورٹ آف پاکستان سے استدعا ہے کہ عمران خان کے خط کے ساتھ کمیونسٹ پارٹی کی مندرخہ بالا شفارشات کو مدِنظر رکھ کر ایسا فیصلہ صادرکیا جائے جس سے انصاف ہوتا ہوا نظر آئے۔

 

دستخط بتاریخ

2020 مئی 30

(کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان)

سائل بذریعہ:

چیئرمین کمیونسٹ پارٹی

(انجنئیر جمیل احمد ملک)

فتح جنگ چوک

اٹک کینٹ۔

       منجانب: پریس میڈیا آف سی پی پی

              موبائل نمبر:0300-9543331

https://youtu.be/j119_HLNzjg